ہِل اِسٹیشن سے

مشتاق احمد یوسفی

Artwork by Joon Youn

ان دنوں مرزا کے اعصاب پر ہِل اسٹیشن بُری طرح سوار تھا۔ لیکن ہمارا حال ان سے بھی زیادہ خستہ تھا۔ اس لئے کہ ہم پر مرزا اپنے متاثّرہ اعصاب اور ہِل اسٹیشن سمیت سوار تھے۔ جان ضِیق میں تھی۔ اٹھتے بیٹھتے،سوتے جاگتے اِسی کا ذکر، اسی کا وِرد۔ ہُوا یہ کہ وہ سرکاری خرچ پر دو دِن کے لئے کوئٹہ ہو آئے تھے اور اب اس پر مچلے تھے کہ ہم بلا تنخواہ رخصت پر اُن کے ساتھ دو مہینے وہاں گزار آئیں، جیسا کہ گرمیوں میں شرفا و عمائدینِ کراچی کا دستور ہے۔ ہم نے کہا، سچ پوچھو تو ہم اسی لئے وہاں نہیں جانا چاہتے کہ جن لوگوں کے سائے سے ہم کراچی میں سال بھر بچتے پِھرتے ہیں، وہ سب مئی جون میں وہاں جمع ہوجاتے ہیں۔ بولے،ٹھیک کہتے ہو۔ مگر بندۂ خُدا! اپنی صحّت تو دیکھو۔ تمہیں اپنے بال بچّوں پر ترس نہیں آتا؟ کب تک حکیم ڈاکٹروں کا پیٹ پالتے رہو گے؟ وہاں پہنچتے ہی بغیر دوا کے چاق چوبند ہوجاؤ گے۔ پانی میں دوا کی تاثیر ہے اور (مُسکراتے ہُوئے) کِسی کِسی دن مزا بھی وَیسا ہی۔ یُوں بھی جو وقت پہاڑ پر گُزرے، عمر سے مِنہا نہیں کیا جاتا۔ مکھّی مچھّرکا نام نہیں۔ کیچڑ ڈھونڈے سے نہیں مِلتی۔ اِس لئے کہ پانی کی سخت قِلّت ہے۔ لوگوں کی تندرستی کا حال تمہیں کیا بتاؤں۔ جسے دیکھو، گالوں سے گُلابی رنگ ٹپکا پڑ رہا ہے۔ ابھی پچھلے سال وہاں ایک وزیر نے اسپتال کا اِفتتاح کیا تو تِین دن پہلے ایک مریض کو کراچی سے بلوانا پڑا اور اس کی نگرانی پر چار بڑے ڈاکٹر تعینات کئے گئے کہ کہیں وہ رسمِ افتتاح سے پہلے ہی صحّت یاب نہ ہوجائے۔ ہم نے کہا، آب و ہوا اپنی جگہ، مگر ہم دوا کے بغیر اپنے تئِیں نارمل محسُوس نہیں کرتے۔ بولے، اس کی فکر نہ کرو۔ کوئٹہ میں آنکھ بند کر کے کسی بھی بازار میں نکل جاؤ۔ ہر تیسری دُکان دواؤں کی ملے گی اور ہر دُوسری دُکان تنُوری روٹیوں کی۔ پوچھا، اور پہلی دُکان؟ بولے، اس میں ان دُکانوں کے لئے سائن بورڈ تیار کئے جاتے ہیں۔ ہم نے کہا لیکن کراچی کی طرح وہاں قدم قدم پر ڈاکٹر کہاں؟ آج کل تو بغیر ڈاکٹر کی مدد کے آدمی مر بھی نہیں سکتا۔ کہنے لگے، چھوڑو بھی! فرضیبیماریوںکےلئےتویونانیدوائیںتیربہدفہوتیہیں۔

ہمارے بے جا شکوک اور غلط فہمیوں کا اِس مدلّل طریقے سے ازالہ کرنے کے بعد انھوں نے اپنا وکیلوں کا سالب و لہجہ چھوڑا اور بڑی گرم جوشی سے ہمارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ’’ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں‘‘ والے انداز میں کہا ’’بھئی! اب تمہارا شمار بھی حیثیّت داروں میں ہونے لگا۔ جبھی تو بنک کو پانچ ہزار قرض دینے میں ذرا پس و پیش نہ ہُوا۔ واللہ! میں حسد نہیں کرتا۔ خُدا جلد تمہاری حیثیت میں اِتنی ترقّی دے کہ پچاس ہزار تک مقروض ہوسکو۔میں اپنی جگہ صِرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ اب تمہیں اپنے انکم بریکٹ 1 والوں کی طرح گرمیاں گُزارنے ہِل اسٹیشن جاناچاہیے۔ یہ نہیں تو کم از کم چُھٹّی لے کر گھر ہی بیٹھ جایا کرو۔ تمہارا یُوں کُھلے عام سڑکوں پر پھرنا کسی طرح مناسب نہیں۔ میری سنو ۱۹۵۶ ٔ کی بات ہے۔ گرمیوں میں کچھ یہی دن تھے۔ میری بڑی بچّی اسکُول سے لَوٹی تو بہت روہانسی تھی۔ کُریدنے پر پتہ چلا کہ اس کی ایک سہیلی نے جو وادیِ سوات جار ہی تھی، طعنہ دیا کہ کیاتم لوگ نادار ہو، جو سال بھراپنے ہی گھر میں رہتے ہو۔ صاحب! وہ دِن ہے اور آج کا دِن، میں تو ہر سال مئی جون میں چُھٹّی لے کر مع اہل و عیال ’’انڈر گراؤنڈ ‘‘ ہوجاتا ہوں۔ پھر انھوں نے کراچی کے اور بھی بہت سے زمین دوز شرفا ٔ کے نام بتائے جو انہی کی طرح سال کے سال اپنی عزّت و ناموس کی حفاظت کرتے ہیں۔ اپنا یہ وار کارگر ہوتا دیکھا تو ’’ناک آؤٹ ‘‘ ضرب لگائی۔ فرمایا ’’تم جو ادھر دس سال سے رخصت پر نہیں گئے تو لوگوں کو خیال ہوچلا ہے کہ تم اس ڈر کے مارے نہیں کھسکتے کہ دفتر والوں کو کہیں یہ پتہ نہ چل جائے کہ تمہارے بغیر بھی بخوبی کام چل سکتا ہے۔‘‘

قصّہ حاتم طائی میں ایک طلِسماتی پہاڑ کا ذکر آتا ہے۔ کوہِ ندا اس کا نام ہے اوریہ نام یُوں پڑا کہ قلّۂ کوہ سے ایک عجیب و غریب آواز آتی ہے کہ جس کسی کو یہ سنائی دے، وہ جس حالت میں، جہاں بھی ہو، بے اختیار اسی کی طرف دوڑنے لگتا ہے۔ پھر دنیا کی کوئی طاقت، کوئی رشتہ ناتا، کوئی بندھن اسے روک نہیں سکتا۔ اب لوگ اسے قصّہ کہانی سمجھ کر مُسکرا دیتے ہیں، حالانکہ سُننے والوں نے سُنا ہے کہ ایسی آواز اب ہر سال ہر پہاڑ سے آنے لگی ہے۔ مرزا کا کہنا ہے کہ یہ آواز جب تمہیں پہلے پہل سُنائی دے تو اپنی مُفلِسی کو اپنے اور پہاڑ کے درمیان حائل نہ ہونے دو۔ لہٰذا طے پایا کہ صحّت اور غیرت کا یہی تقاضا ہے کہ ہِل اسٹیشن چلا جائے۔ خواہ مزید قرض ہی کیوں نہ لینا پڑے۔ ہم نے دبے لہجے میں یاد دلایا کہ قرض مقراضِ محبّت ہے۔ مرزا بولے، دیکھتے نہیں، لوگ اِس مقراض کو کیسی چابکدستی سے استعمال کر کے اپنی مشکلات دُوسروں کو منتقل کر دیتے ہیں؟ صاحب! ہنرمندکےہاتھمیںاوزاربھیہتھیاربنجاتاہے۔یہاںیہوضاحتغالباًبےمحلنہہوگیکہقرضکےبابمیںمرزاکاپندرہبیسسالسےوہیعقیدہہےجومولاناحالیؔکاعِلموہُنرکےبارےمیںتھایعنیہرطرحسےحاصِلکرناچاہیے۔

جس سے مِلے، جہاں ملے، جس قدر ملے

لیکنہمنےاتنیشرطضرورلگادیکہپروفیسرقاضیعبدالقدّوسساتھہوںگےتوذرادللگیرہےگیاورضِرغوصبھیساتھچلیںگے۔بلکہہمسبانہیکیچمچماتیبیوککارمیںچلیںگے۔

پروفیسر قاضی عبدالقدّوس ظریف نہ سہی، ظرافت کے مواقع ضرور فراہم کرتے رہتے ہیں۔ مگر انھیں ساتھ گھسیٹنے میں تفنّنِ طبع کے علاوہ ان کی دُنیا و عاقبت سنوارنے کا جذبہ بھی کار فرما تھا۔ وہ یُوں کہ قصبہ چاکسُوؔ سے کراچی وارد ہونے کے بعد وہ پندرہ سال سے ریل میں نہیں بیٹھے تھے اور اب یہ عالَم ہوگیا تھا کہ کبھی میونسپل حدود سے باہر قدم پڑجائے تو اپنے کو غریبُ الوطن محسُوس کرنے لگتے۔ آخر کس باپ کے بیٹے ہیں۔ ان کے والدِ بزرگوار مرتے مرگئے، مگر فرنگی کی ریل میں نہیں بیٹھے اور آخر دم تک اس عقیدے پر بڑے استقلال سے قائم رہے کہ دُوسرے قصبوں میں چاند اتنا بڑا ہو ہی نہیں سکتا جتنا کہ چاکسُوؔ میں۔مناظرِ قدرت کے شیدائی ہیں۔ خصُوصاً دریائے سندھ کے۔ کہتے ہیں، خُدا کی قسم! اِسسےخوبصورتدریانہیںدیکھا۔وہقسمنہکھائیںتببھییہدعویٰحرفبحرفصحیحہے۔اِسلئےکہانھوںنےواقعیکوئیاوردریانہیںدیکھا۔خُداجانےکبسےاُدھارکھائےبیٹھےتھے۔بسٹوکنےکیدیرتھی،کہنےلگے،ضُرورچلوںگا۔کراچیتونِراریگستانہے،بارشکانامنہیں۔دوسالسےکانپَرنالےکیآوازکوترسگئےہیں۔میںتوساوَنبھادوںمیںراتکوغسلخانےکانلکُھلاچھوڑکرسوتاہُوںتاکہخوابمیںٹپٹپکیآوازآتیرہے۔مرزانےٹوکاکہکوئٹہمیںبھیبرساتمیںبارشنہیںہوتی۔پوچھا،کیامطلب؟بولے،جاڑےمیںہوتیہے۔

تاہم ’’پاک بوہیمین کافی ہاؤس‘‘ میںکئیدنتکقیاسآرائیاںہوتیرہیںکہپروفیسرقدّوسساتھچلنےکےلئےاتنیجلدیکیسےآمادہہوگئےاورکوئٹہکانامسُنتےہیملتانکیکوریصُراحیکیطرحکیوںسَنسنانےلگے۔مرزانےکچھاورہیتاویلکی۔فرمایا،قصّہدراصلیہہےکہپروفیسرکےایکدوستانکےلئےپیرسسےسمورکےدستانےتحفتاًلائےہیں،جنہیںپہننےکےچاؤمیںوہجلدازجلدکسیہِلاسٹیشنجاناچاہتےہیں،کیونکہکراچیمیںتولوگدسمبرمیںبھیململکےکُرتےپہنکرآئسکریمکھانےنکلتےہیں۔اسحُسنِتعلیلکیتصدیقایکحدتکاسسُوٹکیسسےبھیہُوئیجسمیںپروفیسریہدستانےرکھکرلےگئےتھے۔اسپریورپکےہوٹلوںکےرنگبرنگےلیبلچپکےہُوئےتھے۔وہاسےکبھیجھاڑتےپونچھتےنہیںتھےکہکہیںوہاُترنہجائیں۔

اب رہے ضِرغوص۔ تو رسمی تعارف کے لئے اِتنا کافی ہوگا کہ پورا نام ضِرغامُ الاسلام صدّیقی ایم۔ اے۔ ایل۔ ایل۔بی سینئر ایڈووکیٹ ہے۔ ہمارے یُونیورسٹی کے ساتھی ہیں۔ اُس زمانے میں لڑکے بر بنائے اخلاص و اختصار انھیں’’ضِرغوص‘‘ کہتے تھے۔ اِن مخلص حلقوں میں آج بھی اسی مخفّف نام سے پُکارے اور یاد کئے جاتے ہیں۔ اکثر ناواقِف اِعتراض کر بیٹھتے ہیں، بھلا یہ بھی کوئی نام ہُوا۔ لیکن ایک دفعہ انھیں دیکھ لیں تو کہتے ہیں، ٹھیک ہی ہے۔ پروفیسر نے ان کی شخصیّت کا تجزیہ بلکہ پوسٹ مارٹم کرتے ہُوئے ایک دفعہ بڑے مزے کی بات کہی۔ فرمایا، ان کی شخصیّت میں سے ’’بنک بیلنس‘‘ اور ’’بیوک‘‘ نکال دیں تو باقی کیا رہ جاتا ہے؟ مرزا نے جھٹ سے لُقمہ دیا، ایک بدنصیب بیوی ـــــ ! سَیر و سیاحت کے رسیا ،لیکن ذرا کُھرچ کر دیکھئے تو اندر سے ٹھیٹ شہری۔ ایسا شہری جو بڑی محنت، بڑی مشقّت سے جنگلوں کو ختم کر کے شہر آباد کرتا ہے اور جب شہر آباد ہوجاتے ہیں تو پھر جنگلوں کی تلاش میں مارا مارا پِھرتا ہے۔ بڑے وضعدار آدمی ہیں اور اس قبیلے سے ہیں جو پھانسی کے تختے پر چڑھنے سے پہلے اپنی ٹائی کی گرہ درست کرنا ضرُوری سمجھتا ہے۔ زیادہ تر کار سے سفر کرتے ہیں اور اسے بھی کمرۂ عدالت تصوّر کرتے ہیں۔ چنانچہ کراچی سے اگر کابُل جانا ہو وہ اپنے محلّے کے چوراہے سے ہی درۂ خیبر کا راستہ پُوچھنےلگیں گے۔ دو سال پہلے مرزا ان کے ہمراہ مری اور وادیِ کاغان کی سیر کر آئے تھے اور ان کا بیان ہے کہ کراچی میونسپل کارپوریشن کے حدود سے نکلنے سے پہلے ہی وہ پاکستان کا ’’روڈ مَیپ‘‘ (سڑکوں کا نقشہ) سِیٹپرپھیلاکربغوردیکھنےلگے۔مرزانےکہاتمہیںبغیرنقشہدیکھےبھییہمعلُومہوناچاہیےکہکراچیسےنکلنےکیایکہیسڑکہے۔بقیہتینطرفسمندرہے۔بولے،اِسیلئےتوساراتردّدہے۔

اِسی سفر کی یاد گار ایک تصویر تھی جو ضِرغوص نے کوہِ شوگراںؔ پر ایک پنشن یافتہ ٹٹّو پر بحالتِ رکوع کھنچوائی تھی۔ اِس تصویر میں وہ دُم کے علاوہ ٹٹّو کی ہر چیز پر سوار نظر آتے تھے۔ لگام اِتنے زور سے کھینچ رکھی تھی کہ ٹٹّو کے کان ان کے کانوں کو چُھو رہے تھے۔ اور چاروں کانوں کے بیچ میں ٹٹّو کی گردن پر اُن کی سہ منزلہ ٹھوڑی کی قلم لگی ہُوئی تھی۔ اپنا سارا وزن رکاب پر ڈالے ہُوئے تھے تاکہ ٹٹّو پر بوجھ نہ پڑے۔ مرزا کہتے ہیں کہ کھڑی چڑھائی کے دوران کئی مرتبہ ا یسا ہُوا کہ ٹٹّو کمر لچکا کر رانوں کے نیچے سے سٹک گیا اور ضِرغوص کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ دُشوار گزار ڈھلوانوں پر جہاں پگڈنڈی تنگ اور دائیں بائیں ہزاروں فٹ گہرے کھڈ ہوتے، وہاں وہ خود ٹانگیں سیدھی کر کے کھڑے رہ جاتے۔ کہتے تھے، اگر مقدّر میں گر کر ہی مرنا لکّھا ہے تو میں اپنی ٹانگوں کی لغزش سے مرنا پسند کروں گا، ٹٹّو کی نہیں۔ یہ تصویر تین چار ہفتے تک ان کے دفتر میں ’’رش‘‘ لیتیرہی۔بعدازاںدُوسرےوکیلوںنےسمجھابجھاکراُتروادیکہانجمنِانسدادِبےرحمیِجانورانوالوںمیںسےکسینےدیکھلیتوکھٹاکسےتمہاراچالانکردیںگے۔



(۲)

چار درویشوں کا یہ قافلہ کار سے روانہ ہُوا۔ ریگستان کا سفر اور لُو کا یہ عالم کہ پسینہ نکلنے سے پہلے خشک! جیکب آباد سے آگے بڑھے تو مرزا کو بڑی شدّت سے چنوں کی کمی محسُوس ہونے لگی۔ اس لئے کہ اگر وہ پاس ہوتے تو ریت میں بڑے خستہ بُھونے جا سکتے تھے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد اُنھوں نے صُراحی میں پتّی ڈال کر چائے بنانے کی تجویز پیش کی جو بلا شکریہ اِس لئے رد کر دی گئی کہ سڑک سے دُھواں سا اُٹھ رہا تھا اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد ضِرغوص کو یہی گرم پانی گرم تر ٹائروں پر چھڑکنا پڑتا تھا۔ ۱۲۰ درجہ گرمی سے پِگھلے ہُوئے تارکول کی چھینٹیں اُڑ اُڑ کر کار کے شیشے کو داغدار کر رہی تھیں۔ اِس چھلنی میں سے جھانکتے ہُوئے ہم نے اُنگلی کے اِشارے سے پروفیسر کو سات آٹھ سال کی بلوچ لڑکی دکھائی جو سر پر خالی گھڑا رکّھے، سڑک پر ننگے پاؤں چلی جا رہی تھی۔ جیسے ہی اُس پر نظر پڑی، پروفیسر نے برف کی ڈلی جو وہ چُوس رہے تھے فوراً تھوک دی۔ اِس پر ضِرغوص کہنے لگے کہ وہ ایک دفعہ جنوری میں کراچی سے برف باری کا منظر دیکھنے گئے تو مری کے نواح میں برف پر پَیروں کے نشان نظر آئے ، جن میں خُون جما ہُوا تھا۔ہوٹل گائیڈ نے بتایا کہ یہ پہاڑیوں اور ان کے بچّوں کے پَیروں کے نشان ہیں۔ پروفیسر کے چہرے پر درد کی لہر دیکھ کر ضِرغوص تسلّی دینے لگے کہ یہ لوگ تو ’’لینڈ اسکیپ‘‘ ہیکاحصّہہوتےہیں۔اِنمیںاحساسنہیںہوتا۔پروفیسرنےکہا،یہکیسےہوسکتاہے؟ہارنبجاتےہُوئےبولے،احساسہوتاتوننگےپاؤںکیوںچلتے؟

راستے کی رُوداد جو راستے ہی کی طرح طویل اور دلچسپ ہے، ہم علاحدہ رپورتاژ کے لئے اٹھا رکھتے ہیں کہ ہر سنگِ میل سے ایک یادگار حماقت وابستہ ہے۔ سرِدست اتنا اِشارہ کافی ہوگا کہ پروفیسر اور مرزا کے لطفِ صُحبت نے چھ سو میل کی مسافت اور تکان کو محسُوس نہ ہونے دِیا۔ پہاڑی راستوں کے اُتار چڑھاؤ پروفیسر کے لئے نئی چیز تھی۔ بطورِ خاص ہمیں مخاطب کر کے فرمایا، واللہ! یہ سڑک تو ہارٹ اٹیک کے کارڈیو گرام کی مانند ہے! ہر ناگہانی موڑ پر انھیں بیگم کی مانگ اُجڑتی ہُوئی دکھائی دیتی اور وہ مڑ مڑ کے سڑک کو دیکھتے جو پہاڑ کے گرد سانپ کی طرح لپٹتی، بل کھاتی چلی گئی تھی۔ ضِرغوص نے کار کو ایک سُرنگ میں سے پروکر نِکالا تو مرزا انگریز انجینئروں کو یاد کرکے ایک دم جذباتی ہوگئے۔ دونوں ہاتھ پھیلاکر کہنے لگے یہ ہِل اسٹیشن انگریز کی دین ہیں۔ یہ پہاڑ انگریز کی دریافت ہیں۔ پروفیسر قدّوس نے دائیں کنپٹی کُھجاتے ہُوئے فوراً تردید کی۔ فرمایا، تاریخ کہتی ہے کہ اِن پہاڑوں پر انگریزوں سے پہلے بھی لوگ رہتے تھے۔ مرزا نے کہا ،بجا! مگر انھیں یہ معلُوم نہیں تھا کہ ہم پہاڑ پر رہ رہے ہیں! بالآخر نوک جھوک اور پہاڑوں کا سلسلہ ختم ہُوا اور سانپ کے پھن پر ایک ہیرا دمکتا ہُوا دکھائی دیا۔

“EUREKA! EUREKA!”

شہر میں داخِل ہوتے ہی ہم تو اپنے آپ کو مقامی آب و ہوا کے سُپرد کر کے بے غم ہوگئے، لیکن مرزا کی باچھّیں کانوں تک کھل گئیں اور ایسی کھلیں کہ دہانے پر تربُوز کی قاش فِٹ آجائے۔ سڑک کے دونوں طرف دیو قامت چنار دیکھ کر انہی کی طرح جُھومنے لگے۔ بولے،ا ِس کو کہتے ہیں عالم آرائی۔ ایک پیڑ کے نیچے پُوری برات سوجائے۔ یُوں ہونے کو لاہور میں بھی درخت ہیں۔ ایک سے ایک تناور، ایک سے ایک چھتنار۔ مگر جون جولائی میں پتّا تک نہیں ہلتا۔ معلُوم ہوتا ہے، سانس روکے فوٹو کھنچوانے کھڑے ہیں۔ ہم بڑھ کر بولے، لیکن کراچی میں تو چوبیس گھنٹے فرحت بخش سمندری ہوا چلتی رہتی ہے۔ فرمایا، ہاں! کراچی میں پیپل کا پتّا بھی ہلنے لگے تو ہم اسے یکے از عجائباتِ قدرت جان کرمیونسپل کارپویشن کا شکر ادا کرتے ہیں، جس نے یہ بیل بُوٹے اُگائے۔ مگر یہاں اس ’’نیچرل بیوٹی‘‘ کی داد دینے والا کوئی نہیں۔ ہائے! یہ منظر تو بالکل ’’کرِسمس کارڈ ‘‘ کی طرح ہے!

ہم تینوں یہ ’’کرسمس کارڈ ‘‘ دیکھنے کے بجائے پروفیسر کو دیکھ رہے تھے ا ور وہ ’’زندہ‘‘ درختوںکواُنگلیوںسےچُھوچُھوکراپنینظرکیتصدیقکررہےتھے۔دراصلوہخوبانیوںکوپھلوالوںکیدُکانوںمیںرنگینکاغذوںاورگوٹےکےتاروںسےسجاسجایادیکھنےکےاسقدرعادیہوگئےتھےکہابکسیطرحیقیننہیںآتاتھاکہخُوبانیاںدرختوںمیںبھیلگسکتیہیں۔

فاضلپروفیسرتادیراِسرُوحپرورومنظرسےمحظُوظہوتےرہےبلکہاُسکےکُچھلذیذحصّےتناولبھیفرمائے۔



(۳)

پہلا مسئلہ رہائش کا تھا۔اِس کا اِنتخاب و اِنتظام پروفیسر کی ناقص رائے پر چھوڑ دیا گیا، مگر ان کی نظر میں کوئی ہوٹل نہیں جچتا تھا۔ ایک ’’الٹرا ماڈرن‘‘ ہوٹل کو اِس لئے نا پسند کیا کہ اس کے غسل خانے بڑے کشادہ تھے، مگر کمرے مُوذی کی گور کی طرح تنگ۔ دُوسرے ہوٹل کو اس لئے کہ وہاں معاملہ برعکس تھا اور تیسرے ہوٹل کو اِس وجہ سے کہ وہاں دونوں چیزیں ایک ہی ڈیزائن پر بنائی گئی تھیں۔ یعنی ـــــــــ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ چوتھے عالیشان ہوٹل سے اِس بِنا پر بھاگ لئے کہ بندہ کسی ایسے ہوٹل میں ٹھیرنے کا رودارنہیں، جہاں کے بیرے مُسافروں سے زیادہ اسمارٹ ہوں۔ پھر کار پانچویں ہوٹل کے پورچ میں جاکر رُکی، جہاں ایک سائن بورڈ دو دو فٹ لمبے حروف میں دعوتِ طعام و قیام دے رہا تھا:

گھر کی سی غِذا اور فضا

اب کی دفعہ مرزا بدک گئے۔ کہنے لگے ’’صاحِب! میں ایک منٹ بھی ایسی جگہ نہیں رہ سکتا، جہاں پھر وہی ـــــــــ ‘‘

جُملہمکمّلہونےسےپہلےہمانکامطلبسمجھکرآگےبڑھگئے۔

چھٹا نمبر ’’جنتان‘‘ ہوٹل کا تھا۔ انگریزوں کے وقتوں کی یہ ترشی ترشائی سی عمارت سفیدے کے چکنے چکنے تنوں کی او ٹ سے یُوں جھلملا رہی تھی جیسے سالگرہ کا کیک ــــــــــــــ! دیکھتے ہی سب لوٹ ہوگئے۔ پروفیسر نے آگے بڑھ کر اُس کے ازکار رفتہ اینگلو انڈین منیجر سے بعد مصافحہ کرایہ دریافت کیا۔ جواب ملا، سنگل رُوم ــــــــــــــ پچپن روپے یومیہ۔ ڈبل رُوم ــــــــــــــ میاں بیوی کے لئے ـــــــــــــــ پچھتّر روپے۔ سب سنّاٹے میں آگئے۔ ذرا اَوسان درست ہُوئے تو مرزا نے سُوکھے مُنہ سے پُوچھا:

’’کیا اپنی ذاتی بیوی کے ساتھ بھی پچھتّر روپے ہوں گے؟‘‘

بارے رہنے کا ٹھکانہ ہُوا تو سیر سپاٹے کی سُوجھی۔ پروفیسر کو کوئٹہ بحیثیتِ مجموعی بہت پسند آیا۔ یہ ’’ بحیثیتِ مجموعی‘‘ کی پخ ہماری نہیں، انہی کی لگائی ہُوئی ہے۔ دِل میں وہ اِس شہرِ نگاراں، اِس سیر گاہِ مغرُوراں کی ایک ایک ادا، بلکہ ایک ایک اینٹ پر نثار تھے۔ لیکن محفل میں کھُل کر تعریف نہیں کرتے تھے، مبادا لوگ انھیں ٹُورسٹ بیُورو کا افسر سمجھنے لگیں۔ چار پانچ روز بعد ہم نے تخلیے میں پوچھا، کہو، ہِل اسٹیشن پسند آیا؟ بولے، ہاں! اگر یہ پہاڑ نہ ہوں تو جگہ اچھّی ہے! پوچھا، پہاڑوں سے کیا ہرج ہے؟ بولے، بقول مجازؔ، دُوسری طرف کا منظر نظر نہیں آتا۔ در اصل انھیں بے برگ و گیاہ پہاڑ دیکھ کر قدرے مایُوسی ہُوئی۔ چنانچہ ایک دن کہنے لگے:

’’مرزا! یہ پہاڑ تمہارے سر کی طرح کیوں ہیں؟‘‘

’’ایک زمانے میں یہ بھی دیوداروں اور صنوبروں سے ڈھکے ہُوئے تھے۔ پربت پربت ہریالی ہی ہریالی تھی۔ مگر بکریاں سب چٹ کرگئیں۔ اِسی لئے حکومت نے بکریوں کے اِستیصال کے لئے ایک محاذ بنایا ہے اور پُوری قوم خنجر بکف حکومت کے ساتھ ہے۔‘‘

’’مگر ہمیں تو یہاں کہیں بکریاں نظر نہیں آئیں۔‘‘

’’انھیں یہاں کے باشندے چٹ کرگئے۔‘‘

’’لیکن مجھے تو گلی کُوچوں میں یہاں کے اصلی باشندے بھی دِکھائی نہیں دیتے‘‘۔

’’ہاں! وہ اب سبّی 2 میں رہتے ہیں! ‘‘

ہم نے ان دونوں کو سمجھایا، آج درخت نہیں ہیں تو کیا۔ محکمۂ جنگلات سلامت ہے تو کیا نہیں ہو سکتا۔ اِرشاد ہُوا، صاحب! محکمۂ جنگلات ہے تو ہُوا کرے۔ اِن ’’کِلین شیو‘‘ پہاڑوں میں اُس کے غالباً وہی فرائض ہوں گے جو افغانستان میں بحری بیڑے کے!

پروفیسر یہ سنگلاخ پہاڑ دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ ایسے خالص پہاڑ، جن میں پہاڑ کے علاوہ کچھ نہ ہو، دُنیا میں بہت کم پائے جاتے ہیں۔ مرزا نے بہتیرا سمجھایا کہ پہاڑ اور ادھیڑ عورت در اصل آئل پینٹنگ کی طرح ہوتے ہیں ــــــــــــ انھیں ذرا فاصلے سے دیکھنا چاہیے۔ مگر پروفیسر دُور کے جلوے کے قائل نہیں۔ بے شجر پہاڑوں سے ان کی بیزاری کم کرنے کی غرض سے مِرزا نے ایک دِن غروبِ آفتاب کے وقت کوہِ مُردار کے سلسلے کی وہ مشہُور سُرمئی پہاڑی دکھائی، جس کے ’’ سلوٹ‘‘ 3 کودیکھنےوالااگرنظرجماکردیکھےتوایسامعلُومہوتاہےجیسےایکنازکاندامنازنینمُردہپڑیہے۔اسکےپیچھےکوپھیلےہُوئےبال،کُشادہپیشانی،چہرےکاتِیکھاتِیکھاپروفائلاورسینےکاتکونغورسےدیکھنےپرایکایککرکےاُبھرتےچلےجاتےہیں۔مرزااُنگلیپکڑکےپروفیسرکواِستصویرکےہجّےکراتےگئے۔موصُوفاپنیآںکھوںپردائیںہاتھکاچھجّابناکربغوردیکھتےرہےاوراسحسینوحزیںمنظرسےنہصرفمتاثّرہُوئےبلکہبعدمعائنہاعلانفرمایاکہنازکاندامنازنیںمرینہیں،صِرفبےہوشہے۔

پہاڑوں کی تہی دامنی سے گلہ دو دن بعد دُور ہُوا جب سب منزلیں مارتے قائدِ اعظم کے محبُوب ہِل اسٹیشن زیارت (آٹھ ہزار فٹ) پہنچے۔ جہاں تک پروفیسر کی عینک کام کرتی تھی، ہرا ہی ہرا نظر آ رہا تھا۔ بِستر بند کُھلنے سے پہلے فاضل پروفیسر نے ایک پہاڑی سر کر ڈالی اور اس کی چوٹی پر پہنچ کر تصویریں بھی اُتروائیں، جن میں ان کے ہونٹوں پر وہ فاتحانہ مُسکراہٹ کھیل رہی تھی، جو نوّابین و مہاراجگان کے چہروں پر مُردہ شیر کے سر پر را ئفل کا کندا رکھ کر فوٹو کھنچواتے وقت ہُوا کرتی تھی۔ وہ اِس سرکش چوٹی کی بلندی آٹھ ہزار پچاس فٹ بتاتے تھے۔اور اِس میں قطعی مبالغہ نہ تھا۔ اِس لئے کہ سطحِ سمندر سے اِس کی بلندی اِتنی ہی تھی، گو کہ زمین کی سطح سے صرف پچاس فٹ بلند ہو پائی تھی۔ جھوٹ سچ کا حال اللہ جانے، مگر مرزا کا حلفیہ بیان ہے کہ کوہِ مفتوحہ کی چوٹی پر قد م رکھنے کے پانچ منٹ بعد تک فاتح پروفیسر کے ہانپنے کی آواز پچاس فٹ نیچے ’’ بیس کیمپ‘‘ میں صاف سُنائی دیتی تھی، جہاں ضِرغوص مُووی کیمرہ لیے شام کی نارنجی روشنی میں اِس تاریخی منظر کو فلما رہے تھے۔ مذکُورہ مُہم کے آخری مراحل میں پروفیسر نے یہ خیال بھی ظاہر کیاکہ ایسے پہاڑوں پر حکومت بجلی کی لِفٹ لگا دے تو ملک میں کوہ پیمائی کا شوق پیدا ہوجائے۔ اِس تن آسانی پر مرز ا نے طعنہ دیا کہ ہماری قوم کا ایک فرد ظہیر الدّین بابرؔ کہ جس کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے یہ کوہ و دمن ، یہ دشت و جبل کبھی گونجے تھے، دو قوی الجثّہ مغل سپاہیوں کو بغل میں دبا کر قلعے کی فصیل پر بے تکان دوڑتا تھا۔ یہ سُنتے ہی پروفیسر چشمے کے پاس سستانے بیٹھ گئے۔ اِس کے صاف و شفّاف پانی سے ہاتھ پاؤں دھوئے اور گلے میں لٹکی ہُوئی چھاگل سے مری بیئر اُنڈیلتے بولے، مگر ہماری تاریخ بابرؔ پر ختم نہیں ہوتی سرکار! آپ یہ کیسے بُھول گئے کہ واجد علی شاہ، تاجدارِ اوَدھ جب زینے پرلڑکھڑاتے ہُوئے چڑھتے تو سہارے کے لئے (اس زمانے میں لکڑی کی ’’ریلنگ‘‘ ایجادنہیں ہُوئی تھی) ہر سیڑھی پر، جی ہاں! ہر سیڑھی پر دونوں طرف نوخیز کنیزیں کھڑی رہتی تھیں ـــــــــــــ مغلوں کی تلوار کی طرح خمیدہ و بے نیام!

پروفیسرنے جغرافیائی دُشواریوں پر اس طرح قابُو پانے کے اور بھی کئی تاریخی طریقے بیان کئے۔ جن کے معتبر ہونے میں شُبہ ہو تو ہو، نُدرت میں کلام نہیں۔ لیکن چوٹی سر کرنے کے بعد جب وہ سنبھل سنبھل کر گھٹنیوں اُتر رہے تھے تو برابر کی چوٹی پر ایک مہیب پرچھائیں نظر آئی۔ پہاڑوں میں سُورج جلدی ڈُوب جاتا ہے اور اس وقت منظر کی جُزئیات پر رات کا کاجل پھیلتا جا رہا تھا۔ سنّاٹا ایسا مکمّل، ایسا شفّاف اور آر پار کہ کلائی اپنے کان سے لگا کر سُنیں تو نبض کی دھک دھک صاف سُنائی دے ۔ دفعتاً پُراسرار پرچھائیں نے حرکت کی۔ پروفیسر کے مُنہ سے بے اِختیار ایک چیخ نکلی اور نکلتی چلی گئی۔ اور جب وہ نِکل چکی تو ’’ریچھ‘‘ کہہ کر وہیں سجدے میں چلے گئے۔ مرزا کو بھی ہدایت کی کہ جہاں ہو، وہیں بیٹھ جاؤ اور سگرٹ بُجھادو۔ مرزا پہلے ہی برفانی ریچھوں کے قصّے سُن چکے تھے۔ یُوں بھی سیدھے سادے مسلمان ہیں، لہٰذا ہدایت پر آنکھ بند کرکے عمل کیا، بلکہ عمل کے بعد بھی آنکھ بند ہی رکّھی۔ لیکن کُچھ دیر بعد جی کڑا کر کے اُسے کھولا تو پُوچھنے لگے ’’ مگر یہ ’مَیں مَیں ‘ کیوں کررہا ہے؟‘‘ پروفیسر نے سجدے ہی میں ذرا دیر کان لگا کر سُنا اور پھر اُچھل کر کھڑے ہوگئے۔ فرمایا، ’’ارے صاحب! آواز پر نہ جائیے یہ بڑا مکّار جانور ہوتا ہے!‘‘



(۴)

ضِرغوص جس اہتمام و انصرام سے سفر کرتے ہیں، وہ دیدنی ہے۔ محمّد شاہ رنگیلے کے متعلّق تو سُنا ہی سُنا تھا کہ جب اُس کی فوجِ ظفر موج نادر شاہ دُ رّانی سے لڑنے نکلی تو جرنیل حسبِ مناصب چھوٹی، بڑی، منجھولی پالکیوں میں سوار احکام صادر کرتے جا رہے تھے اور آگے آگے خدمت گار اُن کی آبدار تلواریں اُٹھائے چل رہے تھے۔ مِن جُملہ دیگر ساز و سامانِ حرب کے کئی چھکڑے مہندی سے لدے جِلو میں تھے تاکہ سپاہی اور سپہ سالار اپنے ہاتھ پیروں اور بالوں کو رَن میں جانے سے پہلے شاہ پسند رنگ میں رنگ سکیں۔ مرزا سے روایت ہے کہ سفر تو خیر سفر ہے۔ ضِرغوص شہر میں بھی اِتنی وضعداری برتتے ہیں کہ ان کا بڑا لڑکا کرکٹ کھیلتا ہے تو چپراسی چھتری لگائے ساتھ ساتھ دوڑتا ہے۔ غالبؔ کی طرح ضِرغوص تیغ و کفن ہی نہیں، تختہ غسل اور کافور تک باندھ کر لے جانے والوں میں سے ہیں۔ لحاف اور ململ کا کُرتا، نمک اور کوکا کولا، تاش اور کیسانواؔ (اُن کا سیاہ کتّا) ڈِنر جیکٹ اور ’’پِک وِک پیپرز‘‘،بندوقاورفرسٹایڈکابڑابکســــــــــــغرضیکہکونسیغیرضرُوریچیزہےجودورانِسفراُنکیزنبیلمیںنہیںہوتی؟البتّہاسمرتبہواپسیپرانھیںیہقلقرہاکہسفریُوںتوہرلحاظسےکامیابرہامگرفرسٹایڈکاساماناستعمالکرنےکاکوئیموقعنہیںملا۔

ان کے اندر جو شہری بسا ہُوا ہے وہ کسی طرح اور کسی لمحے اُن کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور اُن کا ہاتھ پکڑکرکبھی بادام کے تنے پر چاقُو کی نوک سے اپنا نام اور تاریخِ آمد لکھواتا ہے اورکبھی پہاڑی چکور کے شوخ رنگوں کی داد بائیس بور کی گولی سے دیتا ہے۔کبھی گونجتے گرجتے آبشاروں کے دامن میں ’’راک اینڈ رول‘‘ اور ’’ٹوئسٹ‘‘ کے ریکارڈ بجاکر سیٹیوں سے سنگت کرتا ہے اور کبھی جنگلوں کی سیر کو یُوں نکلتا ہے گویا ’’ایلفی‘‘ 4 یا ’’مال‘‘ پر شام کے شکار کو نکلا ہے۔ مرزا نے بارہا سمجھایا، دیکھو! پہاڑوں، جنگلوں اور دیہاتوں میں جانا ہو تو یُوں نہ نکلا کرو ـــــــــــــ یوڈی کلون لگائے، سگار مُنہ میں، ہر سانس بیئر میں بسا ہُوا، باتوں میں ڈرائنگ روم کی مہک ـــــــــــــ اس سے دیہات کی بھینی بھینی خُوشبوئیں دب جاتی ہیں۔ وہ سہمی سہمی خُوشبوئیں جو یاد دِلاتی ہیں کہ یہاں سے دیہات کی سرحد شُروع ہوتی ہے۔ وہ سرحد جہاں سدا خُوشبوؤں کی دھنک نکلی رہتی ہے۔ کچّے دُودھ اور تازہ کٹی ہُوئی گھاس کی میٹھی میٹھی باس، چَھپّروں، کَھپریلوں سے چَھن چَھن کر نِکلتا ہُوا اُپلوں کا کڑوا کڑوا دُھواں، گھُمر گھُمر چلتی چکّی سے پھسلتے ہُوئے مکئی کے آٹے کی گرم گرم سُگند کے ساتھ ’’وہ کنوار پتے کی تیز مہک‘‘ جوہڑ کی کائی کا بھیگا چھچھلاندا جھونکا، سرسوں کی بالیوں کی کٹیلی مہکار، بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کا بھبکا، انگاروں پرسنکتی ہُوئی روٹی کی سیدھی معدے میں گُھس جانے والی لپٹ اور اُن سب میں رَچی ہُوئی، ان سب میں گُھلی ہُوئی کھیتوں اور کھلیانوں میں تانبا سے تپتے ہُوئے جِسموں کی ہزاروں سال پُرانی مہک ـــــــــــــ یہ زمین کے وحشی سانس کی خُوشبو ہے۔ زمین کو سانس لینے دو۔ اِس کی خُوشبوکےسوتےخُون سےجا ملتے ہیں۔اسے مساموں میں سہج سہج جذب ہونے دو۔اسے ہوانا سگار اور ’’ڈیوڈورنٹ‘‘ 5سےنہماروکہیہایکدفعہجسبستیسےرُوٹھجاتیہے،پھرلَوٹکرنہیںآتی۔تُمنےدیکھاہوگا،چھوٹےبچّوںکےجسمسےایکپُراسرارمہکآتیہے،کچّیکچّی،کوریکوری،جوبڑےہوکراچانکغائبہوجاتیہے۔یہیحالبستیوںکاہے۔شہراببُوڑھےہوچکےہیں۔اُنمیںاپنیکوئیخُوشبوباقینہیںرہی۔

پروفیسر قدّوس کو ایسی باتوں میں ’’لادے اِک جنگل مُجھے بازار سے‘‘ والافلسفہنظرآتاہے۔جوسفیدکالروالوںکیخُوشبودارفراریتکیپیداوارہے۔کہتےہیں،شہریغزالوںکانافہانکےسرمیںہوتاہے۔ہمنےدیکھاہےکہبحثمیںچاروںطرفسےشہپڑنےلگےتووہمرزاہیکےکسینیمفلسفیانہفقرےکیفصیلوںکےپیچھےدبکجاتےہیںاوراسلحاظسےانکارویّہٹھیٹپروفیسرانہہوتاہے۔یعنیاصلمتنکےبجائےمحضفُٹنوٹپڑھناکارِثوابسمجھتےہیں۔لیکنضِرغوصکاعملصحّتمندانہنہسہی،صحّتافزاضرورہوتاہے۔وہاِسطرحکہوہمناظرِقدرتکیداداپنےمِعدےسےدیتےہیں۔جہاںموسمخوشگواراورمنظرخوشآئندہُوا،اورانکیسمجھمیںاسسےلطفاندوزہونےکاایکیہیطریقہآیاکہڈٹکرکھایاجائےاورباربارکھایاجائے۔اوراسخوشگوارشغلسےجوتھوڑاساوقتبچرہے،اُسمیںرمیکھیلیجائے۔یہاںبدقسمتیسےموسمہمیشہاچّھارہتاتھا۔اِسلئےروزانہکھانےکےدرمیانیوقفوںمیںرمیکیبازیجمتی۔مخلصدوستوںنےاِسطرحپُورےچھہفتےایکدُوسرےکوکنگالبنانےکیمخلصانہکوششوںمیںگُزاردِیے۔ضِرغوصتوآنکھبچاکرپتّابدلنےمیںبھیمضائقہنہیںسمجھتے۔اِسلئےکہیہنہکریںتوبھیپروفیسرہرجیتنےوالےکوبےایمانسمجھتےہیں۔بہرصورتہمنےتویہدیکھاکہاَنگنتشادابلمحے،جوچِیڑاورچنارکےنظّارےمیںصَرفہوسکتےتھے،وہدونوںنےچڑیاکےغُلاماورپانکےچوّےپرنظریںجمائےگُزاردیےاورکبھیپلٹکرپُرہیبتپہاڑوںکےڈُوبتےسورجاورچڑھتےچاندکاجلالنہیںدیکھااورنہکبھیآنکھاُٹھاکراسرُوپنگرکیآندیکھی،جسکےسرسےزلزلےکیقیامتگُزرگئی،مگرجہاںآجبھیگلابدہکتےہیں۔رہگزاروںپربھیاوررخساروںپربھی۔اِنکیکنپٹیوںپرابرُوپہلیتارجِھلملانےلگےہیں،مگروہابھیاسلذّتِآوارگیسےآشنانہیںہُوئےجوایکپلمیںایکجُگکارسبھردیتیہے۔ابھیانھوںنےہرپُھول،ہرچہرےکویُوںجیبھرکےدیکھنانہیںسیکھا،جیسےآخریباردیکھرہےہوں،پھردیکھنانصیبنہہوگا۔ایسےہیکوہساروںاوروادیوںسےگُزرتےہُوئےبابرؔنےاپنیتزکؔمیںکتنیمایُوسیکےساتھلکھاہےکہجبہمکسیدریاکےکنارےپڑاؤڈالتےہیںتوہماورہماریمغلفوجاپنےخیموںکارُخدریاکےدلکشمنظرکیطرفرکھتےہیں،لیکنہماریہندیفوجاپنےخیموںکیپِیٹھدریاکیطرفکرلیتیہے۔

یہاں ضِرغوص کی کم نگہی دکھانی مقصود نہیں۔ ایمان کی بات یہ ہے کہ کراچی پہنچ کر انھوں نے اپنی کھینچی ہُوئی رنگین فلمیں اسکرین پر دیکھیں تو دنگ رہ گئے۔ کہنے لگے، یار! کمال ہے! ان سے تو معلُوم ہوتا ہے کہ کوئٹہ خوبصورت جگہ ہے!

__________________

1 انکمبریکٹ: مَساوی آمدنی والوں کا طبقہ۔
2 سبّی: کوئٹہ سے کوئی سَو میل دُور ایک انتہائی گرم (۱۲۰- ۱۱۵  ڈگری) مقام،جسےکوئٹہکادروازہکہناچاہئے،کیونکہ

ہر رہ جو ادھر کو جاتی ہے سبّی سے گزر کر جاتی ہے
3 سلوٹ: چہرےکےایکرُخکیآؤٹلائن،جسمیںسیاہرنگبھراہو۔
4 ایلفی:ایلفِنسٹناسٹریٹ،کراچی
5 ڈیوڈورنٹ : قُدرتیبُوکوزائلکرنےوالیدوائیں۔